"اولیور: وہ بندر جو انسان لگتا تھا"
(ایک سچا واقعہ جو انسان اور حیوان کے درمیان لکیر کو دھندلا کر گیا)

 

انیس سو ساٹھ کی دہائی کے آغاز میں، افریقہ کے دل، کانگو کے گھنے جنگلات میں ایک ننھا سا بچہ پیدا ہوا۔ مگر یہ کوئی انسان نہیں بلکہ ایک چمپینزی تھا۔ اس کا نام رکھا گیا: اولیور۔ لیکن وقت نے جلد ہی ثابت کر دیا کہ یہ چمپینزی دوسروں جیسا نہیں تھا۔

اولیور بچپن ہی سے عجیب تھا۔ جہاں دوسرے چمپینزی زمین پر ہاتھ پاؤں کے بل چلتے، اولیور سیدھا کھڑا ہو کر، دو ٹانگوں پر چلتا۔ اس کی چال میں وہ جھجک یا لڑکھڑاہٹ نہیں تھی جو جانوروں میں دیکھی جاتی ہے۔ یوں لگتا جیسے وہ پیدائشی طور پر دو پاؤں پر چلنے کے لیے ہی بنا ہو۔

اس کے چہرے کی ساخت بھی انوکھے پن کا مظہر تھی—چہرہ نسبتاً چپٹا، کان چھوٹے، اور جبڑا اندر کو دھنسا ہوا۔ یہ سب کچھ اسے کسی عام چمپینزی سے کہیں زیادہ انسان جیسا دکھاتا تھا۔ کچھ ماہرین تو یہ سوچنے لگے کہ کہیں یہ انسان اور چمپینزی کا ملاپ تو نہیں؟

مگر صرف شکل و صورت ہی نہیں، اولیور کے رویّے بھی چونکا دینے والے تھے۔ وہ دوسرے چمپینزیوں کی طرح مادہ چمپینزیوں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا تھا، بلکہ انسانوں، خاص طور پر خواتین، کی طرف کشش محسوس کرتا تھا۔ اس کا رویہ اتنا غیرمعمولی تھا کہ جب اسے 1970 کی دہائی میں امریکہ لایا گیا، تو ذرائع ابلاغ میں تہلکہ مچ گیا۔

ٹی وی شوز، اخبارات، اور نمائشوں میں اولیور کو "انسان نما بندر" کہہ کر پیش کیا گیا۔ کئی لوگوں نے تو اسے "گم شدہ کڑی" یا Missing Link تک قرار دے دیا—وہ کڑی جو انسان اور بندر کے درمیان ارتقائی تعلق کی تصدیق کر دے۔

سائنسدانوں نے اولیور کے ڈی این اے، عادات، اور رویے پر گہرے تجربات شروع کیے۔ کیا یہ واقعی کوئی نئی قسم ہے؟ یا پھر کوئی جینیاتی معجزہ؟

آخرکار 1990 کی دہائی میں کی گئی تفصیلی جینیاتی جانچ سے پتا چلا کہ اولیور مکمل طور پر ایک چمپینزی ہی ہے—اگرچہ اس کے کروموسومز کی ترتیب میں معمولی فرق پایا گیا، جو یا تو انفرادی تبدیلی کا نتیجہ تھا یا کسی کم معروف ذیلی نسل کی علامت۔

یوں "انسان-چمپینزی ہائبرڈ" کی کہانی تو جھوٹ ثابت ہوئی، مگر اولیور کی شخصیت کا طلسم باقی رہا۔ وہ سائنسی تجسس، اخلاقی سوالات، اور انسانی تعریفوں کو چیلنج کرتا رہا۔

کیا ایک جانور بھی "انسانی" ہو سکتا ہے؟
کیا ہمیں حق ہے کہ ہم کسی ایسے جاندار کو محض تجربات کی خاطر قید کریں؟
اور آخر انسان ہونے کی اصل پہچان کیا ہے—صرف ڈی این اے؟ یا احساس، مشاہدہ، اور تنہائی؟

اولیور نے اپنی زندگی کے آخری برس ٹیکساس کے ایک پناہ گاہ میں گزارے۔ وہ اب بھی دو پیروں پر چلتا، خاموشی سے ارد گرد کو دیکھتا، گویا سب کچھ سمجھتا ہو۔ اس کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا جو انسانوں کو بے چین کر دیتا—جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہو، یا شاید پوچھنا... "کیا میں واقعی تم سے مختلف ہوں؟"

اولیور اب اس دنیا میں نہیں، مگر اس کی کہانی اب بھی باقی ہے۔ یہ ایک ایسی داستان ہے جو سادہ سی نہیں، بلکہ انسان اور جانور کے درمیان دھندلی سی لکیر کو دکھاتی ہے—ایسی لکیر جس پر اگر کوئی کھڑا ہو جائے، تو نہ اسے جنگل قبول کرتا ہے،